تفسیر برگزیدہ سورہ مدثر

ساخت وبلاگ

محتوای سورہ
پیغمبرکوقیام ،انذار ،آشکارا تبلیغ کی دعوت صبر و استقامت کے ساتھ، معاد پر تاکید بار بار مختلف قسموں کے ساتھ، ہر انسان کے نامہ اعمال اسکے اعمال کے مطابق ہونا۔
شان نزول
اس میں شک نہیں کہ یہ سورہ ان سورتوں میں سے ہے جومکّہ میں نازل ہوئی ہیں، لیکن اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ کیا یہ وہ پہلی سُورت ہے جو پیغمبر پرنازل ہوئی ہے یایہ سُورئہ اقراء کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ 
لیکن سورہ "" اقرأ"" اور"" سورئہ مدّثر "" کے مضامین میں غور وخوض کرنے سے اس بات کاپتہ چل جاتاہے کہ "" اقرائ"" آغازِ دعوت میں نازل ہوئی تھی ،اورسُورئہ مدثر اس زمانہ کے ساتھ مربوط ہے جب پیغمبر آشکارِ دعوت پرمعمو رہوئے ، اورپوشیدہ اورپنہاں دعوت کادورختم ہوا،لہذا بعض نے کہاہے کہ سورہ "" اقرائ"" وہ پہلا سورہ ہے کہ جوآغازِ بعثت میں نازل ہوئی اور سُورئہ "" مدثر"" وہ پہلا سورہ ہے کہ جوآشکار دعوت کے بعد ہے اور یہ بات بہت اچھی نظر آ تی ہے ۔ 
بہرحال مکّی سورتوں کامزاج وطبیعت ،جومبداء ومعاد کی دعوت اور شرک سے مبارزہ اورمخالفین کوعذابِ الہٰی کاانداز اورتہدید ہے،اس سورہ میں مکمل طورسے منعکس ہے۔ 
مضامین سورہ 
اس سُورہ کے مباحث مجموعی طورسے سات محوروں کے گرو گردش کرتے ہیں: 
١۔ پیغمبرکوقیام ،انذار ،آشکارا تبلیغ کی دعوت اوراس راہ میں صبرو استقامت اوراس کام کے لیے ضروری آمادگیوں کی تیاری۔ 
٢۔ قیامت کی طرف اشارہ ، دوزخیوں کی صفات ،وہی جوقرآن سے مقابلہ کیے کھڑیہوئے اورجنہوں نے حق کامذاق اڑایا۔
٣۔ کافروں کوڈرانے کے ساتھ دوزخ کی خصوصیات کاایک حصّہ .
٤۔ بار بار کی قسموں کے ذریعہ امیر قیامت پرتاکید۔ 
٥۔ ہرانسان کی سرنوشت کااس کے اعمال کے ساتھ ربط اوراس سلسلہ میں ہرقسم کے غیرمنطقی افکار کی نفی ۔ 
٦۔ جنتیوں اوردوزخیوں کی بعض خصوصیات اوران میں سے ہرایک کی سرنوشت ۔
٧۔ جاہل ،بے خبر، مغرور اور خودغرض لوگوں کے حق سے فرار کی کیفیّت ۔
مختصر تفسیر
پہلے دس آیات میں مخاطب خود پیامبر اکرم ؐ کی ذات ہے اگرچہ اس بات کی ان میں صراحت نہیں ہوئی ہے لیکن ان آیات میں موجود قرآئن اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
پہلے فرمایا کہ اے بستر خواب میں آرام کرنے والے اور اے چادر اوڑھ کر سونے والے، اٹھ کھڑا اور انذار کر اور عالمین کو ڈرا۔ (يَٰٓأَيُّهَا ٱلۡمُدَّثِّرُ قُمۡ فَأَنذِرۡ) 
خصوصیت کے ساتھ انذار پر تکیہ، حالانکہ پیغمبر بشیر بھی ہے اور نذیر بھی۔ اس بنا پر ہے چونکہ انذار خصوصیت کے ساتھ کام کے آغاز میں سوئی ہوئی ارواح کو بیدار کرنے میں زیادہ عمیق اور گہری تاثیررکھتا ہے۔
اس بارے میں کہ پیغمبر بستر میں کیوں آرام کر رہے تھے کہ اس خطاب نے آپ کو قیام کی دعوت دی، مفسرین نے بہت سے احتمال دیئے ہیں۔ 
ایک احتمال یہ ہے کہ 
مشرکین عرب موسم حج کے قریب جمع ہوئے اور ان کے سرداروں مثلا ابو جہل ، ابو سفیان، ولید بن مغیرہ، نضر بن حارث وغیرہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ باہر سے مکہ میں آنے والے لوگوں کے سوالات کے مقابلہ میں جنہوں نے ادھر اُدھر سے پیغمبر اسلام ؐ کے ظہور کے سلسلہ میں مختلف مطالب سنے ہیں کیا کہیں؟
اگر ہر ایک الگ الگ جواب دینا چاہے ، ایک اسے کاہن کہے، دوسرا مجنون کہے، تیسرا ساحر کہے تو یہ اختلاف رائے اچھا اثر نہ چھوڑے گا لہٰذا ضروری ہے کہ پیغمبر کے بر خلاف پروپیگنڈے کی جنگ میں متحد ہوکر کھڑے ہوجائیں۔ بحث و گفتگو کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ سب کے سب اسے ساحرکہیں کیونکہ جادو کے واضح آثار میں سے ایک بیوی اور شوہر اور باپ اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالنا ہے۔ پیغمبر ؐ نے دین اسلام کو پیش کرکے اس قسم کا کام انجام دیا ہے۔ یہ بات پیغمبر ؐ کے کان تک پہنچی تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور بیماروں کی طرح غمگین حالت میں گھر میں آئے اور بستر میں لیٹ گئے تو آیت نازل ہوئی اور آپ کو قیام اور مبارزہ کی دعوت دی۔ 
قابل توجہ بات یہ ہے کہ فانذر (انذار کرو) کا جملہ یہ بیان کرتاہے کہ کس چیز سے ڈراو؟
اور کس موضوع میں انذار کرو؟ اور یہ حقیقت میں عمومیت کے بیان کیلئے ہے، یعنی بت پرستی، شرک و کفر، ظلم و بیداگری اور فساد و عذاب الٰہی اور حساب محشر وغیرہ کے بارے میں لوگوں کو خبردار کرو (اور اصطلاح کے مطابق متعلقہ بات کا محذوف ہونا ، عمومیت پر دلالت کرتاہے) ضمنی طور پر یہ عذاب دنیا کو بھی شامل ہے اور عذاب آخرت کو بھی اور انسان کے اعمال کے بُرے نتائج کو بھی جو اسے دامن گیر ہوں گے۔
قیام انذاز کے بعد حکم
قیام و انذار کے بعد پیغمبر ؐ کو پانچ دستور دیے گئے۔
۱۔ پہلا حکم توحید کے بارے : صرف اپنے رب کو بڑا سمجھ۔ (وَرَبَّكَ فَكَبِّرۡ) 
2۔ مسئلہ توحید کے بعد دوسرا حکم : آلودگیوں سے پاکیزگی کے بارے میں دیتے ہیں۔(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرۡ)
اس کی مختلف تفسیر بیان ہوئی ہے ان سب کو جمع کرنا ممکن ہے کہ حقیقت میں آیت کا اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رہبران الٰہی کی باتیں اسی وقت نفوذ کرسکتی ہیں جبکہ ان کا دامن ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو اور ان کا تقوی و پرہیزگاری ہر لحاظ سے مسلم ہو، اسی لئے قیام و انذار کے بعد پاکدامنی کا حکم دیتاہے۔ 
3۔ ناپاکیوں سے اور ان چیزوں سے جو عذاب الٰہی کا موجب ہیں پرہیز کرو۔ (وَٱلرُّجۡزَ فَٱهۡجُرۡ)
رجز کے مفہوم کی وسعت کی بنا پر اس کیلئے گوناگوں تفسیر بیان کی گئی ہیں۔ مسلمہ طور پر پیغمبر اسلام ؐ نبوت سے پہلے بھی ان امور سے پرہیز کرتے تھے اور ان سے دوری رکھتے تھے لیکن یہاں دعوت الی اللہ کی راہ میں ایک اساسی اور بنیادی اصل کے عنوان سے بھی اور سب کیلئے ایک نمونہ اور اسوہ کے عنوان سے بھی ، اس پر تکیہ ہوا ہے۔ 
4۔ احسان نہ جتلاو اور زیادتی کا مطالبہ نہ کرو۔ (وَلَا تَمۡنُن تَسۡتَكۡثِرُ) 
اس بارے میں کہ احسان جتلانے اور زیادتی طلب کرنے سے نہی کن موارد میں ہے۔ یہاں پر آیت کا مفہوم پھر کلی اور وسیع ہے اور خالق اور مخلوق پر ہر قسم کے احسان جتلانے کو شامل ہے، نہ تو پروردگار پر احسان جتلاو کہ تم اس کیلئے جہاد و سعی کرتے ہو، کیونکہ یہ تو اس نے تم پر احسان کیا ہے کہ یہ بلند مقام تمہیں عطا کیا۔ 
5۔ اپنے پروردگار کیلئے صبر و شکیبائی اختیار کرو۔ (وَلِرَبِّكَ فَٱصۡبِرۡ)
اس کے بعد جو قیام و انذار کے سلسلہ میں گزشتہ آیات میں آیا ہے زیر بحث آیات میں انذار کو ایک بہت ہی تاکید کے ساتھ شروع کرتاہے اور فرماتا ہے کہ: جب صور میں پھونکا جائے گا۔ (فَإِذَا نُقِرَ فِي ٱلنَّاقُورِ) 
تو وہ دن ایک بہت ہی سخت دن ہوگا۔ (فَذَٰلِكَ يَوۡمَئِذٖ يَوۡمٌ عَسِيرٌ) 
وہ بہت ہی پر مشقت دن ہوگا جو کافروں کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ (عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَ غَيۡرُ يَسِيرٖ)
ان آیات میں اس واقعیت کو بیان کرتی ہیں کہ قیامت کے نفخہ میں کافروں کی مشکلات یکے بعد دیگرے نمایاں ہوں گی وہ بہت ہی درد ناک دن ہوگا اور ایسا مصیبت بار اور طاقت فرسا ہوگا کہ وہ طاقت ورترین انسان کے بھی گٹھنے ٹکوادے گا۔
شان نزول
ان آیات کیلئے دو شان نزول بیان کی گئی ہیں۔
۱۔ قریش ’’دارالندوہ‘‘ (مسجد الحرام کے قریب ایک مرکز تھا جس میں وہ اہم مسائل میں مشورہ کرنے کیلئے جمع ہوتے تھے) میں جمع ہوئے۔ ولید (مکہ کا ایک مشہور اور جانا پہچانا شخص تھا جس کی عقل اور سمجھ کے مشرکین قائل تھے اور اہم مسائل میں اس سے مشورہ لیا کرتے تھے) نے ان کی طرف رخ کرکے کہا: تم بلند نسب اور عقل و خرد کے مالک ہو اور عرب ہر طرف سے تمہارے پاس آتے ہیں اور وہ تم سے مختلف جواب سنتے ہیں تم اپنی بات کو (متفق ہوکر) ایک کرو۔
پھر اس نے ان کی طرف رخ کرکے کہا: تم اس شخص کے بارے میں (پیغمبر ؐ) کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں وہ شاعر ہے۔ ولید نے منہ چڑا کر کہا ہم نے شعر بہت سے سنے ہیں لیکن اس کی باتیں شعر کے ساتھ مشابھہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
انہوں نے کہا ہم کہتے ہیں وہ ساحر ہے۔ اس نے کہا ساحر کس معنی میں ہیں؟ ایسا شخص جو دشمن وشمنوں اور دوستوں کے ساتھ دشمنی پیدا کردیتا ہے اور وہ کہنے لگا کہ ہاں وہ ساحر ہے اور وہ ایسا کرتا ہے۔اور وہ سب اسی بات پر اتفاق ہوئے۔
یہ مطلب پیغمبر ؐ پر بہت گراں گزرا تو خدا نے اس سورہ کی ابتدائی آیات اور آیت نمبر ۲۵ تک نازل فرمائیں۔
۲۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ جس وقت سورہ الم سجدہ کی آیات نازل ہوئیں تو پیغمبر مسجد الحرام میں کھڑے تھے اور ولید بن مغیرہ حضرت کے قریب تھا اور آپ کی تلاوت کو سن رہا تھا جب پیغمبر نے اس بات کی طرف توجہ کی تو آپ نے ان آیات کی تلاوت کو دہرایا۔
ولید اپنی قوم کی مجلس میں آیا اور کہا خدا کی قسم ابھی میں نے محمد ؐ سے ایسا کلام سنا ہے کہ جو انسانوں کے کلام کے مشابہ ہے اور نہ جنوں کی باتوں کے۔
اور اس نے کہا کہ وہ تمام قریش کو منحرف کردے گا۔ اس پر ابوجہل نے علاج کا پوچھا۔
اس پر ولید نے کہا کہ ہم اس پر ایک ایسا عیب لگائے گا کہ کوئی اس کی طرف نہیں جائے گا۔
تفسیری نکات:
گزشتہ آیات کے بعد، جن میں کافروں کو مجموعی طور پر ڈرایا گیا ہے ۔ زیر بحث آیات ، خصوصیت کے ساتھ ان کے بعض افراد پر، جو موثر تھے، انگلی رکھتے ہوئے، اس پر گویا و ناطق ، رسا اور سرکوبی کرنے والی تعبیروں کے ساتھ، شدید ترین انذاروں کی بوچھاڑ کردی ہے۔
پہلے کہتا ہے کہ مجھے اس کے ساتھ جسے میں نے اکیلئے ہی پیدا کیا ہے چھوڑدے۔ (ذَرۡنِي وَمَنۡ خَلَقۡتُ وَحِيدٗا)
یہ آیات جیسے کہ شان نزول میں بیان ہوئی ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ’’ وحیدا‘‘ کی تعبیر ممکن ہے خالق کی توصیف میں ہو یا مخلوق کی، پہلی صورت میں بھی دو احتمال ہیں ۔ پہلا یہ کہ مجھے اس کے ساتھ چھوڑدے کہ میں خود اس کو شدید سزادوں، یا یہ کہ میں خود تنہا اسے پیدا کیا اور یہ سب نعمتیں اسے بخشی ہیں، لیکن اس نے نمک حرامی کی ہے۔ 
اور دوسری صورت میں بھی دو احتمال ہیں: ممکن ہے کہ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ماں کی پیٹ میں بھی اور پیدایش کے بعد بھی تنہا تھ نہ اس کے پاس مال تھا اور نہ اولاد اور یہ سب کچھ ہم نے اسے بعد میں بخشا۔ 
اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ میں نے اس کیلئےبہت ہی زیادہ وسیع مال قرار دیا۔ (وَجَعَلۡتُ لَهُۥ مَالٗا مَّمۡدُودٗا)
ممدود اصل میں کھنچے ہوئے کے معنی میں ہے جو یہاں اس کے مال کی وسعت اور حجم کے بیان کیلئے آیا ہے، مکان کے لحاظ سے کشش کے معنی میں ہے۔
افرادی قوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ میں نے اس کیلئے ایسی اولاد قرار دی ہے جو ہمیشہ ان کے پاس اور اس کی خدمت میں حاضر رہتی ہے۔ (وَبَنِينَ شُهُودٗا)
وہ ہمیشہ اس کی مدد اور خدمت کیلئے تیار رہتے ہیں اور ان کی موجودگی اس کے انس اور راحت کا سبب تھی اور وہ تنگی معیشت سے ہرگز مجبور نہیں تھے کہ ان میں سے کوئی بھی دور دراز کے علاقے کی طرف سفر کرے اور باپ کو دوری، ہجر اور تنہائی کا رنج پہنچائیں۔ بعض روایت میں اس کے دس بیٹے تھے۔
وہ نہ صرف مال اور آبرومند بیٹے تھے بلکہ جسمانی اور اجتماعی پہلووں سے بھی، ہر لحاظ سے نعمتوں میں غرق تھا۔ میں نے اس کیلئے ہر لحاظ سے تمام وسائل زندگی فراہم کیے۔(وَمَهَّدتُّ لَهُۥ تَمۡهِيدٗا)
لیکن وہ ان تمام نعمتوں کے بخشنے والےکے آگے سر تسلیم خم کرنے اور اس کے آستانہ پر پیشانی جھکانے کے بجائے کفران نعمت کرنے اور زیادہ طلب کرنے لگا اور اس قدر مال اور نعمت رکھنے کے باوجود پھر بھی یہ لالچ رکھتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں میں اضافہ کریں۔ (ثُمَّ يَطۡمَعُ أَنۡ أَزِيدَ)
یہ بات ولید بن مغیرہ میں ہی منحصر نہیں تھی بلکہ تمام دنیا پرست ایسے ہی ہوتے ہیں ان کی پیاس ہرگز نہیں بجھتی اور اگر ہفت اقلیم بھی ان کے زیر نگین دے دی جائیں تو وہ پھر بھی ایک اور اقلیم کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
لیکن بعد والی آیت پوری شدت کے ساتھ اس نا محرم کی خواہشات کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہر گز ایسا نہیں ہوگا کہ ہم اس کی نعمت میں اور اضافہ کریں، کیونکہ وہ ہماری آیات سے دشمنی رکھتا ہے۔ (كَلَّآۖ إِنَّهُۥ كَانَ لِأٓيَٰتِنَا عَنِيدٗا)
’’کان‘‘ کی تعبیر بتاتی ہے کہ اس کا حق کے ساتھ عناد ایک امر مستمبر اور ہمیشگی کا تھا، ٹوٹنے والا اور جلدی گزرجانے والا نہیں تھا۔
آخر میں زیر بحث آیت میں اس کی دردناک سرنوشت کی طرف مختصر اور پر معنی عبارت کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے کہ ’’ہم عنقریب اسے مجبور کریں گے کہ وہ زندگی کی ’’صعب العبور‘‘ (جس سے گزرنا مشکل ہے) چوٹی سے اوپر جائے‘‘۔ اور پھر ہم اس چوٹی کی بلندی سے اسے نیچے پھینک دیں۔(سَأُرۡهِقُهُۥ صَعُودًا)
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ آیت اس جہاں میں ’’ولید‘‘ کے دنیاوی عذاب کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ جیسا کہ تاریخ میں آیا ہے کہ وہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں کامیابی کی چوٹی کی بلندی پر پہنچے کے بعد اس طرح گرا کہ آخر عمر تک مسلسل اپنے مال اور اولاد کو ہاتھ سے دیتا رہا اور بے حد مجبور اور دیوالیہ ہوگیا۔
آیات نمبر۱۸ سے ۲۵ تک کے شا.ن نزول
ان آیات بارے میں جسے خدا نے فراواں مال و اولاد دی تھی اور وہ پیغمبر اسلام ؐ کی مخالفت کرنے لگا۔ یعنی ولید بن مغیرہ کی مزید وضاحتیں آئی ہیں۔
فرماتا ہے اس نے سوچا کہ پیغمبر اور قرآن کو کس چیز کے ساتھ متہم کرے؟ اور اس نے ایک منصوبہ اپنے ذہن میں تیار کرلیا۔( إِنَّهُۥ فَكَّرَ وَقَدَّرَ)
واضح رہے کہ غور و فکر کرنا اپنی ذات سے ایک اچھا کام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حق کی راہ میں ہو۔
یہاں قدر تقدیر کے مادہ سے یہاں مطلب کو ذہن میں آمادہ کرنے اور اس قبیح منصوبہ کے اجرا کیلئے مصمم ارادہ کرنے کے معنی میں ہے۔ 
پھر اس کی مذمت کیلئے مذید کہتا ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے۔ اس نے حق سے مبارزہ کرنے کیلئے کیسا منصوبہ بنایا ہے۔(فَقُتِلَ كَيۡفَ قَدَّرَ)
اس کے بعد تاکید کے عنوان سے مزید کہتا ہے : پھر بھی وہ مارا جائے ، اس نے حق سے مقابلہ کرنے کیلئے کس قسم کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ (ثُمَّ قُتِلَ كَيۡفَ قَدَّرَ)
کفار کی طرف سے مختلف القاب پیغمبر کو دیے جاتے اور وہ (ولید) ان کو رد کرتے اور آخر میں انہوں نے ’’ساحر‘‘ پر اتفاق کیا۔ قرآن انہیں فکر و قدر کی تعبیر کے ساتھ جو بہت ہی مختصر اور پُر معنی ہے پیش کرتاہے۔ بہرحال خصوصا اس کے تکراروں کی طرف توجہ کرتے ہوئے۔ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے اپنے شیطانی افکار و نظریات میں پوری مہارت تھی، اس طرح سے کہ اس کی فکر اور سوچ باعث تعجب ہے۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے اس نے دوبارہ نظر کی، یعنی اس نے اپنی خود ساختہ فکر کی نئے سرے سے جانچ پڑتال کی، تاکہ اس کیلئے ضروری استحکام و انسجام اور مختلف پہلووں سے آگاہ و مطمئن ہوجائے۔ (ثُمَّ نَظَرَ)
پھر اس نے اپنا منہ چڑایا اور جلد بازی سے کام لیا۔ اس نے حق کی طرف سے پشت پھیر لی اور تکبر کیا۔ (ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ثُمَّ أَدۡبَرَ وَٱسۡتَكۡبَرَ)
اورآخر کار اس نے کہا: یہ چیز ایک عمدہ اور پر کشش جادو کے سوا۔۔ جیسا کہ گزشتہ لوگوں سے نقل ہوا ہے ۔ کچھ نہیں ہے۔ (فَقَالَ إِنۡ هَٰذَآ إِلَّا سِحۡرٞ يُؤۡثَرُ)
یہ صرف انسان کا قول ہے اور اس کا وحی انسانی کے ساتھ کوئی ربط نہیں (إِنۡ هَٰذَآ إِلَّا قَوۡلُ ٱلۡبَشَرِ)
قدر ، تقدیر کے مادہ سے مطلب کو ذہن میں آمادہ کرنے اور اس قبیح منصوبہ کے اجراء کے لئے مصمم ارادہ کرنے کے معنی میں ہے۔
اور اس (ولید) نے مختلف القابات کو رد کر کے ساحر کو چنا چونکہ یہ نقشہ اور منصوبہ مطالعہ کرنے اور سوچ بچار کرنے کے بعد تیار کیاگیا تھا لہٰذا قرآن انہیں فکر و قدر کی تعبیر کے ساتھ جو بہت ہی مختصر اور پر معنی ہے پیش کرتاہے۔ بہر حال یہ جملہ خصوصا اس کے تکراروں کی طرف توجہ کرتے ہوئے۔ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے اپنے شیطانی افکارو نظریات میں پوری مہارت تھی، اس طرح سے کہ اس کی فکر اور سوچ باعث تعجب ہے۔
عبس۔ منہ چڑانے کے معنی میں ہے۔ 
یوثر۔ کا جملہ اثر کے مادہہ سے، اس روایت کے معنی میں ہے کہ وہ آثار جو ان سے باقی رہ گئے ہوں اور بعض نے اسے ایثار کے مادہ سے انتخاب کرنے مقدم رکھنے اور ترجیح دینے کے معنی میں سمجھا ہے۔
گزشتہ آیات کو جاری رکھتے ہوئے، جو شرک کے بعض سرغنوں کی وضع و کیفیت، اور قرآن مجید اور پیغمبر اسلام ؐ کی رسالت کی نفی و انکار کی بات کرتی تھیں، ان آیات میں قیامت میں ان کے وحشت ناک عذاب کی طرف اشارہ کرتاہے۔
ہم عنقریب اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور دوزک کی آگ میں جلائیں گے۔(سَأُصۡلِيهِ سَقَرَ)
سقر دگرگوں ہونے اور سورج کی گرمی کے اثر سے چگھل جانے کے معنی میں ہے اور جہنم کے ناموں میں سے ایک نام کے عنوان سے انتخاب ہوا ہے۔ 
اور اس کے بعد عذاب دوزخ کی عثمت و شدت کے بیان کے لئے کہا ہے کہ تو کیا جانتا ہے کہ سقر کیا ہے۔ وہ نہ کسی چیز کو باقی رہنے دیتی ہے اور نہ ہی کسی چیز کو چھوڑتی ہے۔(وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا سَقَرُ لَا تُبۡقِي وَلَا تَذَرُ)
یہ جملہ ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جہنم کی آگ، دنیا کی آگ کے برخلاف ایک ایسی گھیرنے والی آگ ہے جو انسان کے پورے وجود کو اپنے احاطہ میں لے لی گی اور کسی چیز کو نہیں چھوڑے گی۔
اس کے بعد قہر الٰہی کی اس جلانے والی آگ کی دوسری صفت کو بیان کرتے ہوئے مزید کہتا ہے: وہ بدن کی جلد کو کامل طور پر بدل کر رکھ دے گی، جو بہت دور کے فاصلہ سے انسانوں کیلئے نمایاں ہوگی۔(لَوَّاحَةٞ لِّلۡبَشَرِ)
بشر، بشرہ کی جمع ہے جو بدن کی ظاہری جلد کے معنی میں ہے۔ لواحہ ، لوح کے مادہ سے کبھی تو ظاہر و آشکار ہونے کے معنی میں آتا ہے۔
اور آخر زیر بحث آیت میں فرماتاہے کہ انیس عذاب کے فرشتے جہنم پر مقرر کیے گئے ہیں۔(عَلَيۡهَا تِسۡعَةَ عَشَرَ)
اگرچہ آیت میں صرف انیس کے عدد کا ذکر ہوا ہے اور عذاب پر مامور ملائکہ کی تصریح نہیں ہوئی، لیکن بعد والی آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے یہ تعداد عذاب پر مکامور فرشتوں کی تعداد کی طرف اشارہ ہے۔بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ فرشتوں کے انیس گروہوں کی طرف اشارہ ہے، نہ کہ انیس افراد۔
وَمَا جَعَلۡنَآ أَصۡحَٰبَ ٱلنَّارِ إِلَّا مَلَٰٓئِكَةٗۖ وَمَا جَعَلۡنَا ....................
جیسا کہ بیان ہوا کہ خدا نے دوزخ کے خازنوں اور مامورین کی تعداد انیس افراد(یا انیس گروہ) بیان کی ہے اور یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس عدد کا ذکر مشرکین وار کفار کے درمیان گفتگو کا سبب بنا اور ایک گروہ نے اس کا مذاق اڑایا اور ان کی تعداد کے کم ہونے کو اس بات کی دلیل خیال کیا کہ ان پر غلبہ حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اس آیت میں انہیں جواب دیتی ہے اور اس سلسلہ میں بہت سے حقائق کو واضح کرتی ہے
ارشاد ہوتاہے کہ ہم نے جہنم کے مامورین (عذاب کے ) فرشتوں کے سوا اور کسی کو قرار نہیں دیا اور وہ فرشتے’’ غلاظ، شداد‘‘ بہت شدید اور سخت گیر جن کے سامنے تمام گنہگار ضعیف و ناتواں ہیں۔
اور ان کی تعداد کافروں کی آزمائش کے سوا اور کسی بات کیلئے قرار نہیں دی ہے۔اس بنا پر اگر دوزخ کے انیس خازنین کا ذکر درمیان میں آیا ہے تو اس کا مفہوم یہ نہیں کہ خدا کے لشکر انہیں میں محدود ہیں بلکہ پروردگار کے لشکر اس قدر زیادہ ہیں کہ بعض روایات کی تعبیر کے مطابق تمام زمین و آسمانوں کو انہوں نے بھر رکھا ہے۔ 
پیغمبرؐ کی نبوت کے منکرین اور قیامت کے انکار کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے ان آیات میں کئی ایک قسمیں کھائی ہیں اور قیامت، قبروں سے اٹھنے اور دوزخ و عذاب کے مسئلہ پر تاکید ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ 
كَلَّا وَٱلۡقَمَرِ . وَٱلَّيۡلِ إِذۡ أَدۡبَرَ . وَٱلصُّبۡحِ إِذَآ أَسۡفَرَ . 
جیسا کہ وہ خیال کرتے ہیں ایسا نہیں ہے، چاند کی قسم،قسم ہے رات کی جس وقت وہ پشت پھیرے وار دامن سمیٹے، اور قسم ہے صبح کی جس وقت وہ اپنے چہرے سے نقاب اٹھائے، 
کلا ۔ حرف درع ہے اور عام طور پر ان باتوں کی نفی کیلئے آتا ہے جنہیں طرف مقابل نے پہلے ذکر کیا ہو اور کبھی بعد والی باتوں کی نفی کیلئے بھی ہوتا ہے اور یہاں گزشتہ آیات کے قیرنہ سے ان مشرکین کے گمان کی جو دوزخ اور اس کے عذاب کے منکر تھے اور جہنم کے خازن فرشتوں کا مذاق اڑاتے اور تمسخر کرتے تھے، نفی کرتاہے۔
حقیقت میں یہ تینوں قسمیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ چاند کی جلوہ گری راتوں میں ہے اور دن کے وقت چاند کی روشنی، سورج کی روشنی کے تحت الشعاع میں ہوتی ہے اور وہ مطلقا جلوہ نہیں دکھاتا۔ یہ تینوں قسمیں قرآن کے نور ہدایت اور شرک و بت پرستی کی تاریکیوں کے پشت پھیرنے وار توحید کی صبح کی سفیدی کے پھوٹنے کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں۔ 
ان قسموں کو بیان کرنے کے بعد اس چیز کی طرف رخ کرتاہے، جس کیلئے یہ قسمیں کھائی گئی ہیں، فرماتاہے: یقینا قیامت کے ہولناک حوادث، دوزخ اور عذاب کے فرشتے اہم مسائل میں سے ہیں۔(إِنَّهَا لَإِحۡدَى ٱلۡكُبَرِ)
اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ دوزخ کی خلقت کا مقصد انتقام ہوئی ہرگز نہیں، بلکہ یہ تو انسانوں کو ڈرانے کا ایک ذریعہ ہے۔(نَذِيرٗا لِّلۡبَشَرِ )
آخر میں زیادہ تاکید کیلئے مزید کہتاہے: یہ انداز کسی معین گروہ کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تو تمام افراد بشر کیلئے ہے، تم ان سب لوگوں کیلئے جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں ور نیکیوں اور فرمان خدا کی اطاعت کی طرف پیش رفت کرنا چاہتے ہیں اور چاہے وہ لوگ ہوں جو اس قافلہ سے پیچھے رہ جانے کی طرف مائل ہوں۔ (لِمَن شَآءَ مِنكُمۡ أَن يَتَقَدَّمَ أَوۡ يَتَأَخَّرَ)
جو شخص آگے بڑھنے کی راہ پر چل پڑے، تو اس کا کیا ہی کہتا ہے اور جو تاخیر کی راہ اپنائے اور پیچھے ہٹے تو اس کا بُرا حال ہے۔
اور اسی بحث کو ادامہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر شخص اپنے اعمال کے گرو ہے۔(كُلُّ نَفۡسِۢ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِينَةٌ)
’’رھینہ‘‘ رہن کے مادہ سے (گرو) کے معنی میں ہے اور یہ وہ وثیقہ ہے جو عام طور پر قرض کے مقابلہ میں دیتے ہیں گویا انسان کا تمام وجود اس کے وظائف، تکالیف اور ذمہ داریوں کے انجام دینے میں گرو ہے، جس وقت انہیں انجام دے لیتا ہے، آزاد ہوجاتا ہے ورنہ قیر اسارت میں رہے گا۔ رہن کے معنی میں سے ایک ملازمت و ہمراہی ہے۔ 
مگر اصحاب یمین جو اس اسارت کی قید سے آزاد ہیں۔ (إِلَّآ أَصۡحَٰبَ ٱلۡيَمِينِ)
اصحاب یمین سے کون لوگ مراد ہیں، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض نے تو اس کی ایسے افراد کے ساتھ تفسیر کی ہے جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوگا۔
اس کے بعد اصحاب المین اور ان کے مد مقابل گروہ کے حالات کے ایک گوشہ کی تشریح کرتے ہوئےمزید کہتا ہے کہ وہ جنت کے پر نعمت اور باعثمت باغوں میں ہوں گے اور اس حال میں وہ سوال کریں گے، گنہ گاروں سے، کہ تمہیں کس چیز نے دوزخ میں پہنچادیا ۔(فِي جَنَّٰتٖ يَتَسَآءَلُونَ. عَنِ ٱلۡمُجۡرِمِينَ. مَا سَلَكَكُمۡ فِي سَقَرَ)
ان آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ بہشتیوں اور دوزخیوں کے درمیان کلی طور پر رابطہ منقطع نہیں ہوگا، جنتی اپنے عالم سے دوزخیوں کی حالت کا مشاہدہ کرسکیں اور ان سے گفتگو کرسکیں گے۔
اب مجرمین ’’اصحاب الیمین‘‘ کے اس سوال کا کیا جواب دیتے ہیں؟ وہ اس سلسلہ میں اپنے چار گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔
پہلا یہ کہ وہ کہیں گے : ہم نماز گزاروں میں سے نہیں تھے۔ (قَالُواْ لَمۡ نَكُ مِنَ ٱلۡمُصَلِّينَ)
دوسرا یہ کہ: ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔(وَلَمۡ نَكُ نُطۡعِمُ ٱلۡمِسۡكِينَ)
یہاں مراد ضرورت مندوں کی ہر ضرورت و حاجت میں مدد کرنا مراد ہے، چاہے وہ خوراک ہو یا پوشاک و سکن وغیرہ ہو۔۔
تیسرا یہ کہ ہم ہمیشہ اہل باطل کے ساتھ ہم نشین اور ہم صدا ہوجاتے ہیں۔ (وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ ٱلۡخَآئِضِينَ)
چوتھا یہ کہ ہم ہمیشہ روز جزا کا انکار کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ ہماری موت کا وقت آن پہنچا۔(وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوۡمِ ٱلدِّينِ، حَتَّىٰٓ أَتَىٰنَا ٱلۡيَقِينُ)
یہ بات واضح ہے کہ معاد و قیامت اور حساب و جزا کے دن کا انکار تمام الٰہی اور اخلاقی قدروں کو متزلزل کردیتا ہے اور انسان کو گناہ کے ارتکاب کی جرات دلاتاہے اور اس راستے کی رکاوٹوں کو دور کردیتاہے، خصوصا یہ مسئلہ آخر عمر تک ایک مسلسل عمل کی صورت اختیار کرے۔
آخر میں اس گروہ کے بُرے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: لہٰذا شفاعت کرنے والوں میں سے کسی شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کی حالت کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔(فَمَا تَنفَعُهُمۡ شَفَٰعَةُ ٱلشَّٰفِعِينَ)
زیر بحث آیات اور اسی طرح قرآن مجید کی بعض اور دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں شفاعت کرنے والے متعدد ہوں گے(اور ان کے شفاعت کا دائرہ مختلف ہوگا) ان تمام روایات سے جو شیعہ اور اہل سنت کے منابع سے نقل ہوئی ہیں اور یہ روایات بہت زیادہ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شفاعت کرنے والے قیامت کے دن ان گنہ گاروں کے لئے جن میں شفاعت کی استعداد موجود ہے شفاعت کریں گے۔
یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ شفاعت کرنے والے اس قسم کے لوگوں کی شفاعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ چونکہ شفاعت ان کی حالت کیلئے سود مند نہیں ہوگی لہٰذا وہ ان کی شفاعت نہیں کریں گے، کیونکہ اولیاء خدا لغو کاموں کے مرتکب نہیں ہوتے۔
اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے جو گزشتہ آیات میں مجرموں اور دوزخیوں کے بارے میں آئی تھی، زیر بحث آیات میں اس معانداد و ہٹ دھرمی گروہ کی حق بات سننے اور ہر قسم کی پندو نصیحت سے وحشت کرنے کو واضح ترین صورت میں بیان کرتاہے۔
پہلے کہتاہے کہ وہ اس تذکر اور یاد آوری سے روگرداں کیوں ہیں؟ ( فمالهم عن التذکرة معرضین)
وہ قرآن جیسی شفا بخش دوا سے فرار کیوں کرتے ہیں؟ وہ ہمدرد طبیب کی بات کو رد کیوں کرتے ہیں؟ واقعا تعجب کا کام ہے۔
گویا وہ وحشت زدہ ہوکر بھاگنے والے گدھے ہیں، جنہوں نے شیر یا (شکار) سے فرار کیا ہے۔ (کانهم حمر مستنفرة ، فرت من قسورة)
لیکن اس نادانی اور بے خبری کے باوجود وہ ایسے مغرور اور متکبر ہیں کہ ان میں سے ہر ایک یہ توقع رکھتا ہے کہ خدا کی طرف سے اسے ایک علیٰحدہ خط دیاجائے گا۔(بل یرید کل امری منهم ان یوتی صحفا منشرة)
بعض روایات میں آیا ہے کہ ابوجہل وار قریش کی ایک جماعت نے کہا: اے محمد! ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے، جب تک کہ تو آسمان سے ایسا ایک خط نہ لے آئے جس کا عنوان یہ ہو: خداوند رب العالمین کی طرف سے فلاں بن فلاں کے نام اور اس میں رسمی طور پر یہ حکم دیا جائے کہ ہم تجھ پر ایمان لے آئیں۔
اس لئے بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے: جس طرح سے وہ کہتے ہیں ایسا نہیں۔(کلا)
ان پر آسمانی کتاب کا نازل ہونا اور اسی قسم کے دوسرے مطالب یہ سب بہانے ہیں۔
حقیقت میں وہ آخرت سے نہیں ڈرتے۔(بل لا یخافون الاخرة)
اس کے بعد ایک مرتبہ اور تاکید کرتا ہے کہ جس طرح و قرآن کے بارے میں سوچتے ہیں ایسا نہیں ہے۔(کلا)
یقینا قرآن تو تذکر اور یاد آوری ہے۔ اور جو شخص اس سے نصیحت حاصل کرے۔(انه تذکرة، فمن شاء ذکره)
قرآن نے راستے کی نشاندھی کردی ہے اور دیکھنے والی آنکھوں کو بھی اختیار دے دیا ہے اور نور آفتاب بھی ہے تاکہ انسان اپنے آگے دیکھ کر چلے۔
اس کے باوجود اس سے پندو نصیحت حاصل کرنا خدا کی مشیت اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے اور وہ نصیحت نہیں لیتے مگر مگر یہ کہ خدا چاہئے۔(وما یذکروں الا ان یشاء الله)
وہ اہل تقویٰ ور ال مغفرت ہیں۔ (هو اهل التقوی و اهل المغفرة)
خلاصہ
یہ سورہ انذار اور وظائف اور ذمہ داریوں کے حکم سے شروع ہوا اور تقوی کی دعوت اور مغفرت کے وعدے پر ختم ہوا ۔

[ جمعه سیزدهم بهمن ۱۳۹۶ ] [ 21:13 ] [ احمد علی جواہری ]

حضرت فاطمہ زہراء...
ما را در سایت حضرت فاطمہ زہراء دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 3tahira51 بازدید : 49 تاريخ : شنبه 21 بهمن 1396 ساعت: 0:49