کیا عجب — میری نوا ہائے سحر گاہی سے

ساخت وبلاگ

جب آس پاس کا ماحول رات کی سیاہ چادر اوڑھ لے، ہر طرف خاموشی کا پہرہ ہو، اور خلقِ خدا نیند کی پر سکون آغوش میں آرام کرنے لگے، تو ایسی حالت میں اپنی بستر کو چھوڑ کر ربِ ذو الجلال سے راز و نیاز کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے، کیونکہ رات کے پچھلے پہر انسان کا ذہن صاف ہوتا ہے، حضورِ قلب کی کیفیت حاصل ہوتی ہے، جسم آرام کر لیتا ہے، روح پر سکون ہو جاتی ہے، اور دل میں مادیت کا ہجوم کم پڑ جاتا ہے، تو اس با صفا، پر سکون، ریا کاری سے دور، اور تنہائی کے عالم میں ربِ اکبر کے سامنے اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا ایک عجیب تاثیر رکھتا ہے، اس لئے طولِ تاریخ میں دیکھنے کو ملا ہے، کہ خدا کے صالح بندے ہمیشہ نصفِ شب کے مشتاق رہے، تاکہ اس پر سکون لمحات میں مصلیءِ عبادت پر کھڑے ہو کر اپنی روحوں کی پاکیزگی، دلوں کی نورانیت، ارادوں کی پختگی، اور اخلاص کو مدراجِ کمال تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔خدا کی نگاہ میں تاریکیءِ شب میں راز و نیاز کا اہتمام کرنا، اپنی پیشانی کو اس ذاتِ حق سبحانہ وتعالی کی بارگاہ میں زمین پر رکھ دینا، اور اللہ کی بندگی میں تقصیر پر، اپنی ندامت اور پشیمانی کا اظہار کرنا بہت پسند ہے۔ اسی ضمن میں صادقِ آلِ محمد (عليهما السلام) سے ایک عجیب روایت نظروں سے گزری، جس میں آپ نے فرمایا: (کوئی بھی ایسا نیک اور اچھا عمل نہیں، جسے اللہ کا بندہ انجام دے، مگر یہ کہ اس کا ثواب قرآن میں ذکر نہ ہوا ہو، سوائے نمازِ شب کے، اللہ نے اس عبادت کی عظمت کی وجہ سے اس کے ثواب کو بیان نہیں کیا۔ پس ارشادِ ربُ العزت ہے: {ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں، اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور طمع کی حالت میں پکارتے رہتے ہیں، اور ہمارے دیئے ہوئے رزق سے ہماری راہ میں انفاق کرتے ہیں* پس کسی نفس کو بھی نہیں معلوم، کہ اس کے لئے کیا کیا خنکیءِ چشم (آنکھوں کی ٹھںڈک) کا سامان چھپا کر رکھا گیا ہے، جو ان کے اعمال کی جزا ہے}، یعنی تاریکیءِ شب میں عبادت انجام دینے والے کے لئے جزا ہے، لیکن وہ جزا کیا ہے، اسے مخفی رکھا گیا، تاکہ اس کی عظمت کا اندازہ ہو سکے، اور نفس اس کے جاننے کے بارے مشتاق رہے۔
رات کے وقت بندگیءِ خدا کی اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے، علامہ صاحب نے خود بھی اس عمل کا اہتمام کیا، یہاں تک کے لندن جیسے الحاد سے بھرے ہوئے ماحول میں اسے ترک نہیں کیا، اور ساتھ میں متعدد بار اپنے کلام میں اس عمل کی طرف دعوت بھی دی، اور اسے آہِ سحر گاہی سے تعبیر کیا۔ یہ شعر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں علامہ صاحب تاریکیءِ شب میں انجام دییے جانے والے عبادت کا ایک اہم اور انوکھا فائدہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ بعید نہیں ہے، کہ میری رات کی عبادت، تیرے وجود میں ذوق و شوق، عزم و حوصلے اور اللہ سے ملنے کی آگ کو دوبارہ زندہ کر دے، تجھے پھر سے اللہ کا حب دار بنادے، اور اس فانی دنیا کی حقیقت تیرے لئے واضح کردے، دوسرے لفظوں میں گویا شاعرِ مشرق یہ کہنا چاہتے ہیں، کہ میں نمازِ شب کی دعا میں امتِ مرحومہ کے جوانوں کو نہیں بھولا، میں ہمیشہ اللہ سے دعا کرتا ہوں، کہ میری ملت کے جوانوں کو احساس ذمداری عطا کرے، ان کے باطن کو پاک و پاکیزہ بنا دے، ان کے اندر انتھک محنت کا جذبہ پیدا کردے، ان کے وجود کو غفلت اور کاہلی کے زندان سے آزادی بخشے، کچھ کر گزرنے کی لگن، اور عشقِ خدا کی آگ جو اب ان کے وجود میں ٹھنڈی ہو چکی ہے، اسے دوبارہ حرارت عطا کرے۔
اور اس شعر میں ایک اور نہایت اہم اور خوبصورت پیغام پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ تاریکیءِ شب میں خدا کی عبادت، اس ذات سے راز و نیاز، اور اس کے حضور گڑگڑانا، جو کہ خالصةً ایک انفرادی عمل ہے، اور اسے تنہائی میں انجام دیا جاتا ہے، اس پاکیزہ عمل میں بھی اپنی قوم و ملت کو نہ بھولیں، بلکہ آہِ سحر گاہی جو کہ آسمانوں کو چیرتی ہوئی عرش تک رسائی رکھتی ہے، اس نالہ بیباک کو اپنی قوم و ملت کی ترقی اور پیش رفت کا ذریعہ بنادے، اس غم انگیز نالے کے ذریعے جہاں آپ خدا کے حضور اپنی حاجات پیش کرتے ہیں، اپنی تقصیر کی معافی مانگتے ہیں، اور تزکیہءِ نفس کا اہتمام کرتے ہیں، وہیں ملتِ مرحومہ کو فراموش نہ کریں، خدا سے دعا کریں، کہ وہ اس ملت کے جوانوں کو نیا عزم و حوصلہ عطا کرے، انہیں دنیا کو دل میں جگہ دینے کے بجائے، رب کون و مکان کو جگہ دینے کی توفیق عطا فرمائے، اور عجب نہیں کہ تیرا یہ اخلاص، قوم و ملت کے لئے دعا، اور امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا درد تجھے وہ قوت عطا کر دے، جس سے ایک دفعہ پھر جوانوں کے وجود میں عشق خدا کی آگ بھڑک اٹھے، اور وہ ملت کی تقدیر بدل دیں۔
تحریر: محمد اشفاق

حضرت فاطمہ زہراء...
ما را در سایت حضرت فاطمہ زہراء دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 3tahira51 بازدید : 61 تاريخ : دوشنبه 29 دی 1399 ساعت: 18:58