اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھنے میں قرآن اور اہلبیت ؑ کا کردار

ساخت وبلاگ

وہ گھر جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے توحید کی شمع روشن کرنے اور وحدانیت کا اعلان کرنے کیلئے تعمیر کیا تھا وہاں 360 بت سجا رکھے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے خدا بناتے تھے اور اسکی پوجا کرتے تھے۔ قتل وغارت گری، شراب نوشی، بے حیائی اور بے شرمی ان کے رگوں میں بس چکی تھی اور ان کا پیشہ بن چکا تھا۔ عشق و محبت کی داستانیں رواج بن چکے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا، عورتوں پر ظلم کرنا کوئی عیب شمار نہیں کیاجاتا تھا، معمولی سی باتوں پر جنگ چھڑ جاتی تھی جو پشت در پشت چلی جاتی تھی۔اس دور میں نور حق کی کوئی کرن نظر نہ آتی تھی، انسانی و اخلاقی اقدار بھی بھلادی گئیں تھیں، خود پرستی و ہوس پرستی سے نظام درہم برہم ہوچکا تھا، جہالت کے پردوں میں انسانیت دب چکا تھا صرف عرب ہی نہیں پوری دنیا ظلمت کدہ بن چکی تھی۔ ایسے رسوم ان میں شائع ہوچکا تھا کہ خود عرب ان سے بیزار تھے نہ چاہتے ہوئے بھی پیروی کرتے تھے، چونکہ غیرت معاشرہ کا مسئلہ تھا اور اس چیز نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا اور معاشرے کے ہاتھوں مجبور تھے۔ عجب حال تھا عرب معاشرے کا جب آمنہ کے لال نے شمع ہدایت لے کر آیا۔ اسلام نے ان کے ان تمام غیر اخلاقی کاموں کو روکا جن سے انسانیت مجروح ہورہے تھے اور قتل وغارت ، ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ ایسا دور تھاکہ شیطان انسان کے دلوں پر غالب آچکا تھا اور شیطان کے اشارے پر ہی چلتے تھے اور یہ لوگ اندھیرے میں ڈھوبے ہوئے تھے اور جاہلیت کا تمدن "حمیت" اور جاہلانہ غیض و غضب کی دعوت دیتا ہے لیکن اسلام کا تہذیب و تمدن ، قرار و آرام اور ضبط نفس کی طرف بلاتا ہے۔ ایسے زمانے میں خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت کیلئے ایک ایسا نبی بھیجا جو خلق عظیم کے عظیم درجے پر فائز تھے اور اپنی صادقیت و امانتداری کو اس معاشرے میں منوایا۔ انہوں نے معلم انسانیت بن کر اس دور میں انسانوں کی تربیت شروع کی، ہر طرح کی مشکلات کے باوجود دین اسلام کو فروع دیا، ان تمام رسوم کو ختم کیا جس سے خدا نے منع کیا اور ہر اس کام کا اجراءکیا جو خدا چاہتا تھا اور یہی دین ہے جس نے انسانوں کو آزاد زندگی بسر کرنے کا درس دیا، اچھے اور برے کی تمیز سکھائی، اخلاق و بردباری سکھائی اور انسانوں کو بہترین زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا۔
اس مختصر مقالہ میں کوشش کرونگا کہ کچھ اسلامی تمدن و اصول اس معاشرہ میں کیسے رائج ہوئے اور وہ اصول و تمدن و تہذیب کیا ہے؟ بیان کروں۔


تہذیب سے مراد کسی شخص یا معاشرے کے اعتقادات کا مجموعہ ہے۔ ایک تہذیب تین چیزوں کا مجموعہ ہے: 
۱۔ اعتقادات، ۲۔ اقدار، اور ۳۔ کردار۔ 
تمدن سے مراد انسان کا مادی و معنوی سرمایہ اور اجتماعی نظم و نسق کو اپنانا ہے۔ ہر تمدن کی بنیاد ایک تہذیب پر ہوتی ہے جو اس کیلئے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک تمدن کو وجود میں لانے کیلئے مندرجہ ذیل عناصر کی ضرورت ہوتی ہے: 
۱۔ انسان، ۲۔ تہذیب، ۳۔ قانون۔ 
ظہور اسلام سے پہلے عرب بدو تہذیب و تمدن سے واقف بھی نہ تھے۔ دوران جاہلیت کی دو اہم تہذیبیں ایران اور روم کی تہذیبیں تھیں۔ انہوں نے کبھی جزیرہ عرب پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ اجتماعی زندگی اور نظم و نسق عرب بدو کی فطرت میں ہی نہ تھا۔ ایک عرب بدو کی اجتماعی زندگی اپنے قبیلے تک محدود تھی اور ایک مرکزی حکومت کا تصور دور دور تک دکھائی نہیں دیتا تھا۔ 
ایسے حالات میں جب عرب معاشرہ جاہلیت سے برے ہوئے تھے حکم الٰہی ہوا اے نبی " فاصدع بما تومر واعرض عن المشرکین" ۳ حضور ؐکے علایہ اللہ کے حکم کی اطاعت اور شرک و بت پرستی کی مذمت، قتل و غارت کی مذمت اور دوسرے جاہلانہ رسم و رواج کی مخالفت سے کچھ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے یہ بات مشرکین کو راس نہ آئی وہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے، ظلم و ستم کرنے لگے، نادار مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑا اور آپ ؐمدینہ تشریف لے گئے اور باقاعدہ اسلامی ریاست کا آغاز کیا۔
پیامبر اسلام ؐنے علم و دانش کے سلسلہ میں اور اخلاق و عمل کے بارے میں انسان کی تربیت کی تاکہ وہ ان دونوں پروں کے ذریعے آسمان سعادت کی بلندی پر پرواز کریں اور خدائی راستہ کو اختیار کرکے اس کے مقام قرب کو حاصل کریں۔
آپ ؐ خلق عظیم کے مالک تھے، آپ ؐرحمت اللعالمین اور حلم و علم و کرم و سخاوت و عفت و شجاعت اور باقی صفات میں کمال تھے۔ آپ ؐ انسانیت کے لئے ایک بہت بڑی نعمت تھی، اسی بات کی طرف اشار کرتے ہوئے مولا علی ؑ فرماتے ہیں کہ :
"اس امت پر خدا کی نعمتوں کی طرف دیکھو! اس زمانے میں جب اپنے رسول کو ان کی طرف بھیجا تو اپنے دین کا انہیں مطیع بنادیا اور اسکی دعوت کے ساتھ انہیں متحد کیا۔ دیکھو ! اس عظیم نعمت نے اپنے کرامت کے پروبال کس طرح پھیلادیے اور اپنے نعمنتوں کی نہریں ان کی طرف جاری کیں اور دین حق نے اپنی تمام برکتوں کے ساتھ انہیں گھیر لیا وہ اس کی نعمتوں کے درمیان غرق ہیں اور خوش و خرم زندگی میں شادمان ہیں"۔
اور انہی باتوں کو ادامہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
یہ بعثت اس وقت ہوئی جب لوگ ایسے فنتوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی۔ اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار۔ مشکلات سے نکلنے کا راستہ تنگ و تاریک ہوگئے تھے۔ ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام۔ رحمان کی معصیت ہورہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا، دین کے ستون گر گئے تھے اور آثار نا قابل شناخت ہوگئے تھے۔ راستے مٹ چکے تھے اور شاہرائیں بے نشان ہوگئی تھیں۔ لوگ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستہ پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموں پر وارد ہو رہے تھے۔ انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اس کے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے رونددیا تھا اور سموں سے کچل دیاتھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے۔ پروردگار عالم نے انہیں اس گھر (مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بد ترین ہمسائے۔ جن کے نین بیداری تھی اور جن کا سرمہ آنسو، سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی اور جاہل محترم تھا۔ 
زمانہ جاہلیت ادبیات کے لحاظ سے ایک عہد زرین تھا۔ وہی پا برہنہ اور نیم وحشی بادہ نشین بدو تمام تر اقتصادی و معاشرتی محرومیوں کے باوجود ادبی ذوق اور سخن سے سرشار تھے، یہاں تک کہ آج بھی ان کے اشعار ان کے سنہری زمانے کی یاد دلاتے تھے۔ ان کے بہترین اور قیمتی اشعار ادبیات عرب کا سرمایہ ہیں اور حقیقی عربی ادب کے متلاشیوں کے لئے ایک گراں بہا ذخیرہ ہیں۔ یہ بات اس وقت کے عربوں کے تفوق ادبی اور ذوق سخن پروری کی بہترین دلیل ہے۔
عربوں کے زمانہ جاہلیت میں ایک سالانہ میلا لگتا تھا جو بازار عکاظ کے نام سے مشہور تھا یہ ایک ادبی اجتماع کے ساتھ ساتھ سیاسی و دعالتی کانفرنس بھی تھی۔ اسی بازار میں بڑے بڑے اقتصادی سودے بھی ہوتے تھے، شعراء اورسخنواران اپنی اپنی تخلیقات اس کانفرنس میں پیش کرتے ان میں سے بہترین کا انتخاب ہوتا جسے شعر سال کا انتخاب ہوتا۔ ان میں سے سات یا دس قصیدے سبعہ یا عشر معلقہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس عظیم الشان ادبی مقابلے میں کامیابی شاعر اور ان کے قبیلے کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز تصور کی جاتی تھی۔ 
ایسے زمانے میں قرآن نے اپنی مثل لانے کی دعوت انہی لوگوں کو دی اور سب نے اظہار عجز کیا اور اس کے سامنے سرجھکائے ۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ "یقیناً اللہ نے محمد ؐکو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور تنزیل کا امانتدار بنا کر اس وقت بھیجا جب گم گروہ عرب بد ترین دین کے مالک اور بد ترین علاقہ کے رہنے والے تھے، ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بودباش رکھتے تھے، گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تکلفی رکھتے تھے۔ بت ان کے درمیان نصب تھے اور گناہ انہیں گیرے ہوئے تھے" ۔
ابن کثیر آیت ‘‘کما ارسلنا فیکم رسولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (۸) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : یہاں اللہ اپنی بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی مبعوث فرمایا جو اللہ کی روشن اور نورانی کتاب کی آیتیں ہماری سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی سرارتوں اور جاہلیت کی کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے اور کتاب و حکمت یعنی قرآن اور حدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے پس آپ کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جھل چھایا ہوا تھا، جنہیں صدیوں سے تایکی نے گھیر رکھاتھا، جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تک بھی نہیں پڑتاتھا، دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے، وہ علم میں گہرے اور تکلیف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے، دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بچائے، خود رسول ؐکی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہے۔ 
یہاں اسلامی تہذیب کے ان خصائص کو بیان کیا جاتا ہے جو سیرۃُ الرسول ؐ ، اہلبیت ؑاور قرآن کریم کی روشنی میں مرتب ہوئے اور آئندہ ایک نئی اور بے مثل تہذیب کی بنیاد بنے۔
۱۔ نظام حکومت اسلامی
اس وقت کہ دنیا میں کوئی قانون اور دستور کے نام و نشان تک نہ تھا اور طاقتور دوسرے پر ظلم و جبر سے کام لیتے تھے رسول اکرم ؐ نے ایسے قوانین کا اجرا کیا کہ کہ دنیا ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
آپ ؐ نے ہر چیز کیلئے قوانین وضع کئے ، اٹھنے ،بیٹھنے سے لیکر ایک دوسرے کے ساتھ میل جول اور دیگر معاشرتی زندگی کیلئے بہت اچھے قوانین متعارف کرائے اور معاشرے میں ان قوانین کو اجرا کیا۔یہاں تک کہ نطفہ کے منعقد ہونے سے لیکر مرنے تک کیلئے اور اسی طرح اسلامی دستور وضع کئے۔ وہ احکام جو آج تک مختلف طریقوں مختلف کتانوں کی شکل میں آج تک زندہ ہے اور ان میں مختلف حقوق مثلا جنگ و صلح و قضا و معاملات اور دیگر حقوق انسانی سے بھرے ہوئے ہیں یہ سب انہی احکام اور رسوم و تمدن کا نتیجہ ہے۔ ایسا کوئی موضوع باقی نہیں جس کیلئے اسلام نے حکم نہ دیا ہو۔ 
پیغمبر اسلام حکومت اسلامی کے بانی ہے، دعوت عمومی، مدینہ میں ہجرت اور تبلیغ کے ساتھ اسلام میں گسترش پیدا ہوئی، اور پیغمبر ؐ تربیت دین اور آموزش دین کے علاوہ خود اسلامی معاشرہ کا رہبری فرماتے تھے اور خود مسلمانوں کے درمیان مختلف قسم کے سیاسی، نظامی فرہنگی اور اقتصادی فیصلے کیا کرتے تھے۔ 
امیروں سے کہا کہ غریبوں کا خیال رکھیں، غریبوں کو کہا کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔ الغرض آپ ؐ نے تمام طبقات کو معاشرے کی فلاح و بہبود پر لگا دیا۔ نتیجتاً آپ ؐ کی حکمتِ عملی اور نظم و ضبط کی وجہ سے بغیر کسی جبر و تشدد کے متمول لوگ معاشرے کی فلاح و بہبود پر بے دریغ خرچ کرنے لگے اور یوں حضور ؐ نے معاشرے کے مختلف طبقات کو باہم متحد اور منظم کر دیا اور حق کی حمایت میں باطل کے خلاف سب کو صف آراء کر دیا۔ آپ نے ان تمام عوامل سے احتراز کی تعلیم دی جو معاشرے یا مملکت کو عدم استحکام، اختلال اور جور و ظلم کا شکار کر سکتے ہیں۔
پیغمبرؐ بخوبی جانتے تھے کہ بعثت ابنیا اور نبوت کا مقصد تعلیم و تربیت، اقامہ قسط و عدل اور بندوں کو سعادت اور بلندی تک پہنچانا ہے اور یہ سب حکومت اسلامی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ لذا پہلی فرصت میں آپ ؐ نے حکم خدا سے حکومت اسلامی کا بنیاد رکھا۔
۱۔ مہاجرین اور انصار پر مشتمل ایک فوج تشکیل دیا۔
۲۔ زکات کے حکم نازل ہوئے اور پہلی بار آپ نے محرومین اور فوج کو بیت المال سے خرچ دیا۔
۳۔ قضاوت اور دیگر احکام ایک ایک کر کے نازل ہوئے جس پر عمل کیا۔
اگر سیرت رسول خدا ؐ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے بنیاد رکھنے میں تین مہم چیز ہے جسکو قرآن نے بیان کیا ہے۔’’یا ایھا الذین آمنو اطیعوا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲ - 
اس آیت مجیدہ کے ضمن میں :
۱۔ نبوت و رسالت، یعنی تبلیغ اور بیان احکام و قوانین الٰہی۔
۲۔ ولایت و امامت، یعنی معاشرے میں سیاسی اور اجتماعی رہبر تاکہ معاشرے کو منظم رکھ سکے۔
۳۔ قضاوت اور مساوات۔
حضرت محمد ؐ نے ایک دستور العمل مدینہ میں بنام ’’صحیفہ‘‘ یا معروف بہ ’’چہل و ہفت‘‘ بنایا۔ اس دستور العمل میں ملی ، قبیلگی، قوم پرستی کے بغیر امت واحدہ تشکیل دیا کہ جسکا بنیاد خدا اورآخرت پر ایمان ، مذہب و فردی و اجتماعی حقوق پر مبنی ہے۔ 
اس دستور کو دیکھ کر غریب و امیر اور مختلف مذاہب کے لوگ اسلام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
۲۔ عقیدہ توحید
اسلامی تہذیب و ثقافت کا اولین عنصر ترکیبی توحید ہے۔ توحید ہی وہ بنیادی تعلیم ہے جس کا ابلاغ اسلام کا اولین مقصد تھا ۔اسلام ایک توحیدی مذہب ہے، اسلام دین محبت ہے، دین امن ہے، دین اطاعت ہے اور دین فطرت ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول ؐ کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی۔ اس دین کے ذریعے محبت کے طلبگار انسان کے دل و دماغ کومسخر کر کے انہیں طغیان و بغاوت اور برائیوں سے روک کر بندگی اور حق و صداقت کی طرف لے جاسکتا ہے۔ 
قرآنِ میں عقیدہ توحید کو مکمل طور پر بیان کر دیا ہے اورسورہ اخلاص عقیدہ توحید کا ایسا جامع بیان ہے کہ اس میں عقیدہ توحید کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ان مغالطوں کا ازالہ بھی کر دیا گیا ہے جن کا شکار انسانی شعور آغازِ اسلام کے وقت تھا۔
قُلْ هُوَ اﷲُ اَحَدٌ اﷲُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَم يُوْلَدْ وَلَم يَکُنْ لَّهُ کُفُواً اَحَدٌ 
(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہم سر ہے۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ "الحکم حکمان، حکم الله و حکم الجاهلیه فمن اخطاحکم الله حکم بحکم الجاهلیه" حکم صرف دو طرح کے هیں الله کا حکم یا جاہلیت کا حکم اور جو خدا کا حکم چھوڑدے اس نے جاہلیت کا حکم اختیار کیا۔
اس سے واضح ہو تا ہے کہ آسمانی احکام کے حامل ہونے کے باوجود آج کے مسلمان دوسری اقوام و ملل کے جعلی قوانین کے جو پیچھے پڑے ہوئے ہیں در حقیقت جاہلیت کے راستے پر گامزن ہیں۔ اسلام وہ دین ہے جس میں ہر چیز کے احکام موجود ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان قوانین کو اپنے طرز زندگی میں شامل کریں۔
حضرت علی ؑ ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :
پروردگار عالم نے حضرت محمد ؐکو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت کرائیں۔ اس قرآن کے ذریعہ جسے اس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں اور اس کے منکر ہو تو اقرار کر لیں ۔
۳۔ عقیدہ رِسالت
تاریخ میں اُلوہی ضابطہ یہی رہا ہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ انحطاط کا شکار ہوا تو اس کے زوال اور انحطاط کا ازالہ وحی سے کیا گیا۔ یعنی اس زوال زدہ معاشرے میں انبیاے کرام علیھم السلام مبعوث ہوئے جنہوں نے اللہ کی تائید اور اپنے یقین و عمل کی قوت سے معاشرے کے تن مردہ میں پھر سے روح پھونک دی۔اﷲ تعاليٰ نے دنیا کے ہر خطے اور نسل انسانی کے ہر طبقے کی طرف اپنے رسول اور پیغمبر بھیجے ہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعاليٰ ہے:
وَاِنْ مِّنْ أُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ 
اور کوئی اُمت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہے۔
قرآن کریم کی یہ آیت عمومیت رسالت پر دلالت کرتی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کرہ ارض کا ہر وہ خطہ جہاں چند انسانوں نے مل کر معاشرہ تشکیل دیا ہے، اﷲ کی طرف سے آنے والے انبیاء کے فیضان سے خالی نہیں رہا۔ اِنذار و تبشیر اور دعوت و تبلیغ کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ انسان انبیاء کی تعلیمات کے اثر سے تہذیب و تمدن کے اوصاف سے متصف ہوتا گیا تو آہستہ آہستہ نبوت و رسالت کے اس نظام میں وسعت و آفاقیت پیدا ہوتی چلی گئی اور ایسے انبیاء جن کا دائرہ تبلیغ صرف کرہ ارضی کو محیط تھا' تشریف لا چکے تو کائنات ارضی و سماوی اور قیامت تک کے تمام ادوار کے لیے خاتم الانبیاء سرور کون ومکان ‘ فخرموجودات حضرت محمد ؐ کو مبعوث کر دیا گیا۔ اور وہ دنیا کے سب سے عظیم انقلاب اور سب سے بڑے دین کے داعی اور مبلغ اعظم قرار پائے۔ قرآن مجید نے حضور نبی اکرم ؐ کی اس شان کو یوں بیان فرمایا ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا. 
اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔یعنی اب قیامت تک امت مسلمہ کی معاشرتی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی شناخت کا واحد معتبر حوالہ حضور ختمی مرتبت ؐ کی رسالت ہی ہو گی۔
۴۔ امن و امان کا قیام
امن و امان اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔اسلام دین امن ہے۔ اسلام دین سلامتی ہے ۔اسلام دین رحمت ہے۔ اسلام جہاں جہاں تک نفوذ ہوئے سب سے پہلے امن قائم کیا۔ امن عدل کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا اسلام نے قیام دعدل پر زور دیا ہے ۔
اسلامی تہذیب کی بنیاد ڈالنے میں پیغمبر اکرم ؐ کا دوسرا قدم اتحاد کے جذبے کو وجود میں لانا تھا۔ مدینہ آتے ہی آپ ؐ نے ایسے اقدامات کئے جو وہاں کے مسلمانوں میں نسلی اور قومی اختلافات کے باوجود ان میں مساوات، بھائی چارے اور وحدت کا باعث بنے۔اگر ہم عہد رسالت مآب ؐ کا کسی بھی حوالے سے جائزہ لیا جائے۔ ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ؐ کی انقلابی جدوجہد کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں ہی امن قائم نہیں ہوا بلکہ پوری نسل انسانی کو سکون اور اطمینان کی چادر عطا ہوئی. 
قال قال أبو جعفر ع‏ يا سليمان أ تدري من المسلم قلت جعلت فداك أنت أعلم قال المسلم‏ من‏ سلم المسلمون من لسانه و يده ’’ معصوم سے روایت نقل ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
اسلام میں جہاد فتنہ و فساد کو روکنے کیلئے ہے نہ کہ یہ دہشتگردی جہاد ہے۔ جن محققین نے غیر جانبدارانہ تحقیق کی ہے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو امن اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے اور پیغمبر اسلام نے تو زمانہ جاہلیت میں بھی امن و امان قائم کی ہے جیسا کہ جب عمر مبارک ۲۵؍ سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں بارش کی وجہ سے شگاف پڑ جانے کے سبب کعبۃ اللہ کی تعمیر نو انجام پائی۔ اس میں جب حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے کا موقع آیا تو مختلف قبائل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی، اور قتل و قتال کا اندیشہ پیدا ہو گیا، ایسے موقع پر مکہ کے ایک بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبۃ اللہ میں آئے وہ حجر اسود کو اپنی جگہ رکھے، کل سب سے پہلے کعبہ میں آنے والی شخصیت آپؐ کی تھی، چنانچہ آپؐ نے ایک چادر منگوائی، اس کے وسط میں پتھر رکھا، ہر ہر قبیلے سے ایک ایک نمائندہ طلب کیا، اور ان سب سے کہا کہ وہ چادر کے کنارے پکڑ کر حجر اسود کو اس جگہ تک لے جائیں، جہاں اسے نصب کیا جانا ہے پھر جب وہاں پہنچے تو اپنے دست مبارک سے پتھر کو اس کی جگہ نصب فرما دیا، اس طرح ایک بڑے فتنہ کاسد باب ہوا، اور امن کی فضا قائم رہی۔ پیغمبر اسلام پیغمبر امن ہیں اور ان کا لایا ہوا دین، دین امن ہے تو لاریب ان پر نازل ہونیوالا آخری کتاب قرآن مجید بھی کتاب امن ہے،اسی لئے قرآن نے لوگوں پر واضح اعلان کیا کہ”اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ 
باہمی تعلقات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا گیا۔”بے شک مسلمان تو (آپس میں) بھائی بھائی ہیں (حقیقی بھائی کی طرح ہیں) پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے“ 
دہشت گردی اور ایک دوسرے پر ظلم کے خلاف قرآن یوں گویا ہوئے: من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاها فکانما احیا الناس جمیعا۔ 
جس نے کسی انسان کو بلاوجہ قتل کیا یا دنیا میں فساد پیدا کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا، اور جس نے ایک انسان کی زندگی بچالی گویا اس نے پوری انسانیت کی زندگی بچا لی۔
ولا تبغ الفساد فی الارض إن اللّه لا یحب المفسدین۔ اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ کیونکہ اللہ فساد پھیلانےے والوں والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
تعالوا إلی کلمة سواء بیننا وبینکم الا نعبد إلا اللّه ولا نشرک به شیئاً ولا یتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اللّه۔ آؤ ہمم سب ایک ایسے کلمہ پر اتفاق کر لیں جو ہمارے درمیان برابر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے بجائے ہم خود آپس ہی میں ایک دوسرے کو معبود نہ بنا لیں ۔
۵۔ عقیدہ آخرت
کوئی بھی معاشرہ جب تک اس میں جواب دہی کا تصور نہ پایا جائے وہ اپنے اعمال و تہذیب ورسم و رواج کا امین نہیں بن سکتا۔ اسلام میں یہ تصور بہت ہی اعلا ہے کہ انسان مرنے کے بعد خدا کے سلامنے اپنے کئے ہوئے اعمال کے جوابدہ ہونگے، اپنے اعمال کےاحتساب اور جواب دہی کا تصور اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ انسان کو اپنی زندگی بہتر سے بہتر بنانے پر مجبور کرتا ہے۔یہ وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ایمان پر استحکام اور کفر کے انکار کی بنیاد اسی تصور کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم ایمان بالآخرت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے واضح کرتا ہے: کَيْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاﷲِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاکُمَ ثُمَّ يُمِيْتُکُمْ ثُمَّ يُحِيِيْکُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
جواب دہی اور جرم و سزا کا یہ تصور قرآن مجید میں اِس طرح مذکور ہے: وَاِنَّمَا تُوَفُّوْنَ اُجُوْرَکُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. ۔ اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دیے جائیں گے۔
مزید اِرشاد فرمایاگیا: ثُمَّ تُوَفّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۔ پھر ہر شخص کو اُس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اُن پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ 
بالآخر جزا و سزا کی آخری صورت یوں دکھائی جائے گی کہ: وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغوِيْنَ ‘‘اور (اُس دن) جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی . 
عقیدہ آخرت کے سلسلے میں اِن بنیادی اَجزاء پر کامل یقین رکھنا ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ جس سے انسان کی سماجی اور معاشرتی زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ اگر افراد معاشرہ اس عقیدہ کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر مستحضر رکھیں۔
۶۔ اِنسانی مساوات
انسان اس دنیا میں دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل ، مسائل اور مشکلات کی حل اور دیگر ضروریات زندگی کے سلسلہ میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس طرح عقلی و طبعی یہ حق بنتا ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک دوسرے مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیاجاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیٴ ضمیر کا حق ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
۷۔ حسن خلق
خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :”انک لعلی خلق عظیم“۔ یقینا آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں۔ اور رسول اکرم ؐ نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مکارم اخلاقی کو احیاء کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے ’’انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘
پیغمبر اکرم ؐ کے صفات کے درمیان سب سے اہم صفت ، آنحضرت (ص) کا اخلاق تھا ۔ یہ وہی صفت اور خصوصیت ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنے رسول کی تعریف کی ہے : ”انک لعلی خلق عظیم “۔ یقینا آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں۔ اور رسول اکرم ؐ نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مکارم اخلاقی کو احیاء کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے ” انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“۔ اورنئے مسلمان جب بھی دوسروں سے آنحضرت ؐ کی صفت بیان کرتے تھے تو آپ کی دعوت کی اہم صفت اسی کو سمجھتے تھے۔ حضور نبی اکرم ؐ نے اہل ایمان کو خوش اخلاقی اور نرمی کی تعلیم دی اور انہیں تشدد اور ظلم سے منع فرمایا۔ حضور نبی اکرم ؐ جب بھی کسی کو حاکم بنا کر بھیجتے تو انہیں نصیحت فرماتے:يسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا وتطاوعا ولا تختلفا. 
لوگوں کے لئے سہولت فراہم کرو اور مشکلات پیدا نہ کرو۔ لوگوں کو بشارت دو انہیں وحشت زدہ نہ کرو۔ اتفاق باہمی سے رہو اختلافات پیدا نہ کرو۔
۸۔ قصاص
قصاص معاشرے میں دہشت گردی اور زور جوی ختم کرنے کا بہترین عمل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ :
يَاأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيكُمُ ٱلقِصَاصُ فِي ٱلقَتلَى 
اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں خداوند عالمین کی مخاطب صاحبان عقل، غور و فکر کرنے والے، حاکم اور جن کی معاشرے میں اثرورسوخ ہے وہ سب ہے۔کہ اگر اس حکم قصاص کو جاری کرے گا تو معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا۔چونکہ جب کسی پر حکم قصاص جاری کریں گے تو دوسرے افراد اس قتل و غارت میں معاشرہ گردی سے ڈر جائیں گے۔ 
اس آیت کے بعد خداوند فرماتے ہیں کہ ’’ولکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب لعلکم تتقون ‘‘ یعنی اس آیت میں ایک قاتل کی موت کو معاشرہ کی زندگی سے تعبیر کیاگیا ہے کیونکہ جب ایک قاتل کو سزائے موت ملتی ہے تو دوسروں کیلئے باعث عبرت ہوتی ہے۔یہ فطرت کا اٹل قانون ہے اور انسانی زندگیوں کے تحفظ کا الٰہی حکم۔ ذاتی دشمنی کی بناپر قتل کے مقابلہ میں دہشت گردی کہیں زیادہ بھیانک و سنکگین جرم ہے جس میں ایک دہشت گرد متعدد بے گناہ افراد کا سفاک قاتل ہوتا ہے۔
اور اسلام ہر صورت میں قاتل کی سزائے موت پر اصرار نہیں کرتا اس دین رحمت نے قاتل کی جان بخشی کیلئے کئی راستے تجویز کیے ہیں، صلح، خون بہا کی ادائیگی معافی سے قاتل نہ صرف موت سے بلکہ قید سے بھی آزاد ہوسکتاہے اور یہ سب اس لئے کہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکے چونکہ اس کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔
۹۔ علم و حکمت
اسلام سے پہلے جہاں دنیا میں بہت سی اجارہ داریاں قائم تھیں وہاں تعلیم پر بھی بڑی افسوس ناک اجارہ داری قائم تھی۔اسلام کی آمد سے یہ اجارہ داری ختم ہوئی۔ حضور نبی اکرم ؐ کو دیے ہوئے تہذیب کی بنیاد ہی اِقْرَاْ کے ایجابی اَمر سے ہوا :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَق 
قرآن و حدیث میں علم کو فلاح اور کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اہل علم کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علم انسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتاہے۔ یہ ادنیٰ کو اعلیٰ بناتا ہے۔ غیر تہذیب یافتہ اقوام کو تہذیب کی دولت سے مالا مال کر تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اہل علم افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ اسلام نے تعلیم و تعلم کاشوق دلانے ،علم کی قدرومنزلت بڑھانے ،اہل علم کی عزت افزائی کرنے،معلم ومتعلم کے فرائض منصبی اور اداب کے بیان فرمانے،پڑھانے کے لیے موٴثر طریقے وضع کرنے،تعلیمی کارناموں کو سراہنے،نظام ونصاب کی راہ نمائی اور اس کے اثرات ونتائج واضح کرنے،علم کے آداب بیان کرنے اور اہل علم کی مخالفت اور بے عزتی سے روکنے میں جو بھر پور اور مکمل ہدایات پیش کی ہیں اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

نتیجہ:
انسان زندگی کی بھاگ دوڑ کو سنھبالنے اور بہتر طریقہ سے زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے کہ وہ معاشرتی زندگی گزارے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کے رہے۔اس کے علاوہ تنہا زندگی ممکن نہیں ہے۔لذا اس دنیا میں بہترین زندگی گزارنے کیلئے کچھ اصول و قواعد لازمی ہے کہ جس کے بنیاد پر انسان کے دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی بھی اچھی ہو۔دنیا میں مختلف قوموں نے مختلف اصول متعارف کرائے تاکہ بہتر سے بہتر طریقہ سے زندگی گزارسکے اور کچھ اصول اسلئے بھی بنے کہ حکومت کرسکے اور کچھ اصول معاشرے غیرت بنے۔۔۔ وغیرہ۔ اور یہ سب اس معاشرے کا تمدن اور تہذیب بن چکا تھا۔
اسلامی تہذیب و تمدن ان سب سے بہترین اصول ہے کہ جس میں نطفہ سے لیکر قبر تک کے انسانی تمام زندگی کے اصول شامل ہے۔ اور ان اصولوں اور تمدن پر عمل کرکے نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی زندگی بھی سنوار سکتے ہیں۔


منابع:
1. علامہ ذیشان ؛ ترجمہ نہج البلاغہ، چ، محفوظ بک ایجنسی ۱۹۹۹ء
2. نجفی، علامہ سید صفدر حسین ، ترجمہ تفسیر نمونہ ، چ، مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور ۱۴۱۷ھ
3. ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، مکتبہ قدسیہ پاک، ۲۰۰۶ء
4. صالح، احمد العلی، عرب کھن در آستانہ بعثت، موسستہ انتشارات امیر کبیر ، ۱۳۸۴ھ،ق
5. كلينى، محمد بن يعقوب‏ ،الكافي، (محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى، محمد)، دار الكتب الإسلامية، تهران‏، 1407 ق‏
6. شریف رضی، سید محمد بن حسین، ترجمه، محمد دشتی، نهج البلاغه، انتشارات عروج اندیشه، مشهد، چاپ اول، سال۱۳۸۷(ش).
7. قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، ترجمه، الهی قمسه ای، انتشارات شهاب، چاپ نهم، بهار ۱۳۸۵(ش).
8. طباطبایی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ترجمه، سید محمد باقر موسوی همدانی، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعة المدرسین، قم، چاپ اول، سال ۱۳۶۳(ش).
9. مشکینی، اردبیلی، علی، تفسیر روان، موسسہ الہادی قم، چاپ اول، ۱۳۸۸
10. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، مؤسسه الوفاء، چاپ دوم، بیروت، لبنان، 1457
11. اشرفی تبریزی، ہادی،قصہ ہای قرآنی،انتشارات ظہور ، چاپ اول، ۱۳۹۴
12. سبحانی، جعفر ،مبانی حکومت اسلامی، ناشر کتابخانه امیرالمؤمنین اصفهان، انتشارات توحید، قم ، تاریخ ۱۳۶۲(ش).
13. ڈاکٹر محمد طاہر القادری، سیرۃ الرسول ؐ کی تہذیبی وثقافتی اہمیت، منہاج القرآن پرنٹرز، لاہور، 2007ء

.............................................

حوالہ جات:


1. http://www.erfan.ir/urdu/77263.html
2. تحریر عباس ہمدانی ، http://islamtimes.org/ur/doc/article/1667/
3. سورہ حجر ۹۴
4. نہج البلاغہ خطبہ ۲، ص ۳۷
5. https://fa.wikipedia.org/wiki
6. تفسیر نمونہ ج۱، ص ۸۳
7. نہج البلاغہ خطبہ ۲۶، ص ۹۹
8. سورہ بقرہ ۱۵۱
9. تفسیر ابن کثیر پارہ ۲۰، ص ۲۳۹
10. ا مام خمینی، ولایت فقیه (حکومت اسلامی )صـ ٦ 
11. محمد حسین طباطبایی، تفسیر المیزان ـ ج۴صـ١٢١ 
12. سوده نساء-۵۹۔ ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج۱ صـ۳۱۸ـ۳۱۹
13. امام خمینی ، رساله نوین ۴ـ مسائل سیاسی و حقوقی،صـ۱۵
14. سورۃ الاخلاص
15. نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷، ص ۲۷۱
16. فاطر ۲۴
17. سبا ۲۸
18. سیرۃ الرسول ؐ کی تہذیبی و ثقافتی اہمیت ص 57
19. الكافي (ط - الإسلامية) / ج‏2 / 234 / باب المؤمن و علاماته و صفاته ..... ص : 226
20. سورہ مائدہ ۲
21. سورہ الحجرات ۱۰
22. مائدہ ۲۳
23. قصص ۷۷
24. آل عمران ۶۴
25. سورہ بقرہ ۲۸
26. آل عمران ۱۸۵
27. آل عمران ۱۶۱
28. شعرا ۹۰۔ ۹۱
29. قلم ۴
30. بخری ، الصحیح، کتاب الجهاد، باب ما یکرہ ۱۱۰۴:۳، رقم ۲۸۷۳
31. بقرہ ۱۷۸
32. - تفسیر روان،ج ۱، ص۲۰۵
33. بقرہ ۱۷۹
34. علق ۱

+ نوشته شده در  سه شنبه سوم اسفند ۱۳۹۵ساعت 0:7  توسط احمد علی جواہری  | 
حضرت فاطمہ زہراء...
ما را در سایت حضرت فاطمہ زہراء دنبال می کنید

برچسب : اسلامی,تہذیب,تمدن,بنیاد,رکھنے,میں,قرآن,اور,اہلبیت,کردار, نویسنده : 3tahira51 بازدید : 40 تاريخ : شنبه 28 مرداد 1396 ساعت: 3:01